کیا پاکستان میں موجودہ سیاسی بساط لپیٹ دی جائے گی؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: سید سبطین شاہ

پاکستان ایسا ملک ہے جس کے قائم ہونے کی تاریخ سے ابتک کے عرصے کے دوران کئی مرتبہ فوج براہ راست برسراقتدار رہی ہے۔ اس کے برسر اقتدار آنے کی مختلف وجوعات ہوتی رہی ہیں، کچھ بیان کی جاتی ہیں اور کچھ بیان نہیں کی جاتیں رہیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ فوج کے اب تک برسر اقتدار میں آنے میں اندرونی کے ساتھ ساتھ بیرونی وجوعات بھی شامل تھیں۔  

مثلاً جب جنرل ضیاءالحق نے مارشل لاء لگایا تو اس کے پیچھے بعض بیرونی طاقتیں بھی تھیں جو افغانستان میں سوویت یونین کو پاکستان کے ذریعے روکنا چاہتی تھیں۔ کیونکہ ان بیرونی طاقتوں کے لیے ایک سیاسی حکومت کے بجائے فوجی حکومت کے ساتھ ڈیل کرنا بہت آسان تھا۔ اس طرح جب عالمی طاقتیں دوبارہ افغانستان آنا چاہتی تھیں تو پاکستان میں فوجی جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھال لیا۔

اس ساری کشمکش میں اگر پاکستان میں کوئی سیاسی حکومت آئی بھی تو اسے مضبوط نہیں ہونے دیا گیا۔ پہلے تو کوشش رہی کہ سیاسی زعماء کو ایک خفیہ معاہدے کے ذریعے اقتدار دیاجائے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کوشش رہی کہ کٹھ پتلی اور دو نمبر سیاستدانوں کو سامنے لایاجائے اور ان کو کرپشن کرنے کی کھلی چھٹی دی جائے لیکن اگر وہ آنکھیں دکھانے لگیں تو پھر انہیں اٹھا کر باہر پھینک دیاجائے۔ یہی نوازشریف کے ساتھ ہوا۔ انہیں پہلے نوے کی دہائی میں اقتدار کی اعلیٰ ترین سیڑھی پر چڑھایاگیا جب وہ اس خوشی فہمی میں مبتلا ہونے لگے کہ ان کو ملنے والا بھاری مینڈیٹ ان کی سیاسی محنت کا نتیجہ ہے تو پھرانہیں نہ صرف حکومت سے ہاتھ دھونے پڑے بلکہ بے وطن بھی ہونا پڑا۔

نوازشریف دوبارہ باہر اور اندر مک مکا کرکے بے نظیر کےپیچھے پیچھے ایک بار پھر ملک کے اندر واپس آئے اور آصف زرداری کی صدارت میں پی پی پی کی باری کے بعد انہیں تیسری مرتبہ وزیراعظم بننا نصیب ہوا۔  نوازشریف نے تیسری بار وزیراعظم بننے کے بعد محسوس کرنا شروع کردیا کہ اب کی بار وہ ایک بااختیار وزیراعظم ہیں۔ انھوں نے ایک بار پھر آنکھیں دکھانی شروع کیں یا پھر ان کی بعض باتیں اور اقدامات کچھ حلقوں کو پسند نہ آئے تو ان کے پیچھے لکیر کے فقیر کرکٹ پلٹ سیاستدان عمران خان کو لگا دیا جن کا دھرنے مار مار کر کچھ نہ بنا۔ صرف اتنا ضرور ہوا کہ عمران خان نے گو نواز گو کا نعرہ گھر گھر پہنچا دیا۔ اس سلسلے میڈیا خصوصاً ٹی وی بعض اینکروں نے اہم کردار ادا کیا۔ دھرنوں کی سیاست میں ناکامی کے بعد عمران خان اور ان کے ساتھی پانامہ کیس میں عدالت چلے گئے۔ طاقت کا انجکشن لینے والے ججوں نے بھی پورے پانامہ کیس میں اقامہ کے ایک کمزور سے نکتے کو پکڑ کرنوازشریف کو نااہل کردیا۔

نوازشریف اپنے نااہل ہونے سے ابتک چین سے نہیں بیٹھے۔ کبھی اسلام آباد سے مری اور کبھی اسلام آباد سے براہ راست جی ٹی روڈ نعرے لگاتے لاہور پہنچے۔ کبھی سیاسی معاملات طے کرنے اور اپنی اہلیہ کی عیادت کرنے لندن بھی جانا پڑا۔ نوازشریف کی خالی ہونے والی لاھور سے قومی اسمبلی کی سیٹ پر الیکشن بھی ایک فیصلہ کن معرکہ تھا جس سے یہ اندازہ ہوگیاکہ نوازشریف کو اس کے مرکز میں ہرانا آسان کام نہیں البتہ ن لیگ کو بھی محسوس ہوا کہ کس کے ووٹوں میں گراوٹ آئی ہے۔

اب نوازشریف کے پھرتیلے مشیروں نے انہیں انتخابی اصلاحات کے لیے آئینی ترمیم کا مشورہ دیا جو ان کے دماغ میں کلک کرگیا۔ پھرکیاتھا، حکمران جماعت مسلم لیگ ن نے جلدی میں راتوں رات انتخابی اصلاحات کی صورت میں ایک آئینی ترمیم پارلیمنٹ سے منظور کروا کر اس پر صدر ممنون سے بھی دستخط کروالیے۔ ترمیمی کی منظوری کے فوراً بعد اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں ایک مسلم لیگی اجتماع کے دوران نوازشریف کو پارٹی کا دوبارہ بلامقابلہ صدر منتخب کرلیاگیاہے۔

اگرچہ انھوں نے آئینی ترمیم تو منظور کروالی ہے اور نوازشریف پارٹی صدر بن کر خوش ہوگئے ہیں لیکن انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیاجاسکتاہے اور اگر سپریم کورٹ کے جج دوبارہ ہمت کرکے اس ترمیم کو مسترد کردیتے ہیں تو پھر نوازشریف کو یہ عہدہ چھوڑ کر ایک بار پھر سڑکوں پر آنا پڑے گا۔ اگرچہ نوازشریف فوج سے ڈیل کرنے کا بہت وسیع تجربہ رکھتے ہیں لیکن اب لگتا ہے کہ وہ پارٹی کا دوبارہ صدر بننے کے بعد کسی مصلحت سے کام نہیں لیں گے۔ دوسری طرف ان کی پارٹی میں بعض عناصر کی طرف سے انتشار پیدا کرنے کے خدشات بھی موجود ہیں لیکن نوازشریف جن کے پاس اب وزارت عظمیٰ نہ ہونے کی وجہ سے وقت کافی ہے، کی کوشش ہوگی کہ کم از کم آئندہ انتخابات تک پارٹی کو متحد رکھیں۔ پارٹی میں کسی قسم کا رخنہ پیدا نہ ہو تاکہ ایک بار پھر پارٹی برسر اقتدار آجائے اور وہ چوتھی بار وزیراعظم بن جائیں۔

نوازشریف کے نااہل ہونے سے ابتک پارٹی کی ظاہری صورتحال یہ ہے کہ پارٹی کے اندر نوازشریف کو مکمل حمایت حاصل ہے اور پارٹی کے منتشر ہونے کے خطرات کم دکھائی دیتی ہیں۔ حتیٰ نثارعلی خان جیسے ظاہراً ناراض شخصیت بھی پارٹی چھوڑ کر کہیں نہیں گئی۔

دوسری طرف کچھ حلقوں میں چہ میگویاں بھی جاری ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ آئندہ انتخابات سے قبل ہی ملک میں کوئی تبدیلی آجائے۔ ماشل لاء آنے کے امکانات تو نہ ہونے برابر ہیں لیکن لمبے عرصے کے لیے کسی قومی حکومت کی تشکیل کے بارے میں باتیں ہورہی ہیں۔ نوازشریف کے حق میں آئینی ترمیم کے فوراً بعد راولپنڈی میں جنرل قمرباجوہ کی صدارت میں فوج کے اہم کمانڈروں کا اجلاس بھی بہت اہم ہے۔

موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے کم از کم اتنا منکشف ہوسکتا ہے کہ اگر اس سال کے آخر تک مسلم لیگ ن کے آئندہ سال کے انتخابات کے ذریعے دوبارہ آنے کے آثار واضح ہوجاتے ہیں تو پھراسے روکنے کے لیے اسی عدالت عظمیٰ کے ذریعے ایک قومی حکومت سامنے آسکتی ہے۔ اس نیم مارشل لاء کی صورت میں سیاسی بساط جزوی طور پر لپیٹ دی جائے گی اور کچھ سیاسی اور کچھ سابقہ جج اور کچھ سابقہ فوجی مل کر طویل مدت تک اقتدار سنبھال سکتے ہیں جن کی ڈوراسٹبلمشمنٹ کے ہاتھ میں ہوگی۔ اب حالات کس طرف رخ اختیار کرتے ہیں، کچھ عرصے کے بعد واضح ہوجائے گا۔




Recommended For You

Leave a Comment