نئی قانونی رکاوٹوں کی وجہ سے نارویجن پاکستانیوں میں پاکستان سے شادی کے رحجان میں کمی آئی ہے، ماہرقانون احسن رشید

انٹرویو: سید سبطین شاہ

نئی قانونی رکاوٹیں کی وجہ سے نارویجن پاکستانیوں میں پاکستان سے شادی کے رحجان میں کمی آئی ہے۔ اس کے علاوہ ناروے میں پاکستانیوں کی نوجوان نسل کا بدلتا ہوا رحجان، دومختلف کلچرز میں بڑھتے ہوئے فاصلے اور بدلتی ہوئی روایات بھی پاکستان سے شادیوں کے رحجانات میں روکاوٹ بن رہی ہیں۔

ان تجزیاتی خیالات کا اظہار نارویجن پاکستانی قانوندان احسن رشید جو برطانیہ سے قانون کے شعبے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، اوورسیز ٹریبوں کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔

انھوں نے مزید کہاکہ نارویجن پاکستانیوں کی نئی نسل میں ایک عرصے سے پاکستان سے شادیوں کا رحجان کم ہوتاجارہاتھا اور اب پاکستان اور دیگر ایشیائی ممالک سے شادیوں پر نئی شرائط نے وہاں سے شادی میں مزید روکاوٹیں پیدا کردی ہیں۔

واضح رہے کہ گذشتہ دوسالوں سے نارویجن حکومت نے نارویجن باشندوں کی پاکستان اور دیگرایشیائی ممالک سے شادی کی عمر چوبیس سال کردی ہے اورساتھ ہی شادی کے لیے ناروے میں رہنے والے شریک حیات کی آمدنی تین لاکھ کراون سے زائد سالانہ آمدنی کی شرط عائد کردی ہے۔ اس کے ساتھ ہی شریک حیات کے لیے ویزا درخواست کی جانچ پڑتال میں بھی ایک سے ڈیڑھ سال کا عرصہ لگ جاتا ہے۔

احسن رشید ایڈوکیٹ جو کافی عرصے سے اوسلو اور ناروے کے دیگرشہروں میں بطور وکیل کام کررہے ہیں، کہتے ہیں، شادی کے بعد کئی جوڑوں میں ایک لمبے عرصے تک ویزا کے لیے انتظار کرنا بھی بڑی کوفت اورپریشانی کا باعث بنتاہے۔ اسی وجہ سے اب تک اس طرح  کی کئی شادیاں ناکام ہوئی ہیں اور کئی جوڑوں کو ایک دوسرے کو طلاق دینا پڑی ہے کیونکہ خاوند ناروے اور بیوی پاکستان میں یا بیوی ناروے میں اور خاوند پاکستان میں ایک دشوار عمل ہے، ایک لمبے عرصے تک انتظار بہت محال تھا۔

یہ خبر بھی پڑہیں: پاکستانی قوال شہبازوفیاض برادران نے ناروےمیں دریمن کا میلہ لوٹ لیا 

ان کا کہناہے کہ اب ناروے میں پاکستانیوں کی نوجوان نسل میں بھی ناروے یا یورپ کے دوسرے ملک سے شادی کا رحجان بڑھ رہاہے اور اس وجہ سے بھی پاکستان سے شریک حیات لانے کے رحجان میں کمی واقع ہوئی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں احسن رشید ایڈوکیٹ نے بتایاکہ ناروے اور یورپ کے دیگر ممالک میں پاکستانی یا اسلامی پس منظر رکھنے والے لوگوں کو رشتوں کی تلاش میں مشکلات کا سامنا ہے۔ خاص طور پر وہ شریک حیات جو اسلامی اور پاکستانی کلچر کو سمجھتے ہوں اور والدین اور لڑکے اور لڑکی  کے معیار پر پورے اترتے ہوں، کو تلاش کرنا ایک دشوار کام ہے۔

احسن رشید ایڈوکیٹ

ایک سوال کے جواب میں کہ کیا ناروے کے پاکستانیوں میں ساس اور بہو کے جھگڑا اب بھی موجود ہے؟ احسن رشید نے کہاکہ جب سے نئی نسل ناروے میں پروان چڑھی ہے، اس جھگڑے میں کمی آئی ہے۔ ایک تو نئی نسل خود کفیل ہے اور وہ الگ رہنا پسند کرتے ہیں لہذا اس سے ساس کی مداخلت کم ہوتی ہے اور دوسرا ساسیں بھی ان مقامی قوانین کو سمجھنے لگی ہیں جن میں خواتین اور بچوں کو ترجیحی حقوق دیئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ گھر میں جھگڑا کرنے والی خواتین کا ساتھ بھی نہیں دیاجاتاہے۔ اس سے پہلے ایسا ہوتا رہاہے۔ ساسوں نے اپنی مرضی کی بہو ناروے لا کر اس پر تشدد اور زیادتیاں کیں۔ بہووں کو قانون کا سہارا لینا پڑا، ساس کے خلاف قانونی کاروائی ہوئی اور اس وجہ سے طلاقیں بھی ہوئی ہیں۔ اب یہ رحجان کم ہوا ہے البتہ پاکستان میں ساس اور بہو کا جھگڑا اب بھی کسی حد تک باقی ہے۔

احسن رشید ایڈوکیٹ نے حالیہ دنوں پاکستان میں ناروے کے سفارتخانے کی طرف دو شادیوں کے مسئلہ پر وارننگ کے بارے میں کہاکہ یہ درست ہے کہ بعض نارویجن پاکستانیوں نے ناروے اور پاکستان دونوں جگہ شادیاں کی ہوئی ہیں۔ اگرشادی دونوں جگہوں پر رجسٹرڈ ہے تو ایک قانونی مسئلہ پیدا ہوسکتاہے اور ناروے میں اس کی سزا ہے۔ ناروے کی حکومت اپنے قانون کے مطابق، اپنے ہر شہری کے لیے ایک شادی کی قائل ہے۔ اگر دوسری شادی رجسٹرڈ نہیں ہوتی تو اس کو ثابت کرنا مشکل ہوتاہے۔ جو دو شادیاں دونوں ملکوں میں رجسٹرڈ ہیں، ان کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ کئی لوگوں نے جوانی میں ایک شادی پاکستان میں کرلی تھی اور دوسری شادی ناروے میں اور اب جب پاکستان والے بچے بڑے ہوئے تو انھوں نے نارویجن ویزے کے لیے درخواست دی تو اس طرح کا مسئلہ سامنے آیا ہے اور قانونی پیچیدگی پیدا ہوئی ہے۔

 یہ خبر بھی پڑہیں:یورپی تعلیمی اداروں سے روابط کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ، سفیر پاکستان

اس کے علاوہ، اس حوالے سے باتیں اس وقت بھی سامنے آئیں جب ناروے میں رہنے والی بیویوں نے بھی اپنے خاوندوں کی پاکستان میں دوسری بیویوں کے بارے میں شکایات کیں۔ پاکستان میں ناروے کا سفارتخانہ اپنے سٹاف کے ذریعے جس میں نارویجن پولیس کا نمائندہ بھی شامل ہے، اس طرح کے کیسوں کا پیچھا کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح کے کیسوں میں کئی لوگوں کو ناروے کے قانون کے مطابق سزائیں بھی ہوئی ہیں۔

ناروے میں رہنے والے صومالی باشندوں کے خاندانی مسائل کے بارے میں احسن رشید نے کہاکہ نارویجن صومالیوں کے حوالے سے چند سالوں کے دوران یہ باتیں سامنے آئی تھیں کہ وہ اپنی پہلی بیوی کو طلاق دینے اور دوسرے شادی کرنے کے باوجود اپنی پہلی بیوی سے رجوع کرتے تھے۔ سرکاری طور پر سامنے آنے والے کچھ حقائق کے مطابق، ان میں سے بہت سے لوگوں نے دوطرفہ مالی فوائد کے لیے ایسا کیا تھا۔ یعنی خاوندوں نے اپنی بیویوں کو کاغذی طورپر طلاق دی اور حکومت سے دونوں میاں بیوی نے سوشل سہولیات حاصل کیں۔ احسن رشید کہتے ہیں، حکومت اس طرح کے معاملات پر کڑی نگرانی کرکے سختی سے اس طرح کے رحجانات کو روکنے کی کوشش کی ہے۔

نوٹ: ناروے میں قانونی مشاورت کے لیے احسن رشید ایڈوکیٹ سے انکی نیچے دی ہوئی ویب سائٹ کے ذریعے رابطہ کیاجاسکتاہے:۔

http://www.aradvokat.no




Recommended For You

Leave a Comment