تحریر مہتاب عزیز
ہماری صحافت مسلسل رُو بہ زوال ہے۔ کبھی وہ بلندی تھی کہ صحافت کے افق پر سرسید احمدخان، مولانا محمد علی جوہر، غلام رسول مہر، عبدالمجید سالک اور ظفر علی خان جیسی عظیم ہستیاں دکھائی دیتی تھیں۔ بلکہ مولانا ابوالکلام آزادؒ اور مولانا مودودیؒ جیسے عبقری فخریہ صحافت کو اپنا پیشہ بتایا کرتے تھے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ جیسے رہنماوں نے اخبار نکالے۔ اور اب یہ پستی ہے کہ یار لوگ اپنے کالے کرتوت چھپانے کےلیے چینل اور اخبارات شروع کرتے ہیں۔
الیکٹرونک میڈیا میں ریٹنگ کی دوڑ اور پرنٹ میڈیا میں اشتہارات کے حصول کے چکر نے پہلے ہی صحافتی اقدار کو پامال کر رکھا تھا۔ اب رہی سہی کسر اُن بھانڈوں نے پوری کردی جنہیں اداکاری کے ساتھ اینکرنگ کا شوق چرایا ہے۔ اس اینکرنگ کی داستان بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ صحافت میں جوتے گھسانے اور بال سفید کر کے اینکر بننے کا زمانہ گزر چکا ہے۔ اب تو کسی مقتدر ادارے یا ایڈورٹائزنگ ایجنسی، بزنس ٹائیکون یا مافیا ڈان کی پرچی پر چینل کی ’’سلاٹ‘‘ حاصل کی جاتی ہے۔ پھر سرِ شام ٹائی کوٹ پہن کر یہ مخلوق کُل علوم کے اکلوتے دانشور کے روپ میں دکھائی دیتی ہے۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان کے کل علم کا مرکز، محور اور منبع ’’وکی پیڈیا‘‘ اور ’’گوگل‘‘ ہیں جہاںدستیاب کچی پکی بلکہ بعض اوقات سو فیصد غلط معلومات کو یہ پورے اعتماد کے ساتھ ’ماہرانہ رائے‘، ’انتہائی باوثوق خبر‘ اور ’اندر کی بات‘ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ چونکہ ان کی پیش کردہ معلومات کا مقصد عوام کو آگہی مہیا کرنا نہیں بلکہ ’اپنی پارٹیوں‘ کو خوش کرنا ہوتا ہے، اس لیے انہیں کوئی غرض نہیں کہ جو کہا جا رہا ہے وہ درست بھی ہے یا نہیں۔ البتہ جو واقفان حال انہیں جانتے ہیں، ان کےلیے فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ وہ ان کی ’ماہرانہ رائے‘ پر ہنسیں یا اپنے سر پیٹ لیں۔یہی سلسلہ دیکھتے دیکھتے اب اس کی عادت ہوچکی ہے، ٹھیک اسی طرح جیسے طرح مسلسل تعفن زدہ ماحول میں رہنے سے بدبو کا احساس ختم ہوجاتا ہے۔ اب شام سے نیوز چینلوں کی اسکرین پر چلنے والی ’’بونگیوں‘‘ پر کڑھنے کا سلسلہ تقریباً دم توڑ چکا تھا۔ اعداد و شمار بھی یہی بتاتے ہیں کہ ناظرین کی اکثریت اب ’ٹاک شوز‘ کے بجائے مزاحیہ پروگراموں کو زیادہ شوق سے دیکھنے لگی ہے۔ گویا لوگوں نے دانشوری کی اداکاری کرنے والوں کے بجائے مسخروں کو ان کے اصل روپ میں دیکھنا شروع کردیا ہے۔اسی سلسلے کی تازہ واردات یہ ہوئی کہ ان اینکرز کو رپورٹر بننے کی سوجھی ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک اینکر صاحب نے شام کے جنگ زدہ شہر پہنچنے کا ڈرامہ کیا۔ وہ ترکی کی سرحد پر کھڑے ہو کر کئی سو کلو میٹر دور حلب کا ’’آنکھوں دیکھا حال‘‘ بیان کرتے رہے اور دنیا بھر کے میڈیا کو جھوٹ دکھانے پر صلواتیں سناتے رہے۔ اب کی بار تین عدد مہان اینکرز کو برما جا کر رپورٹنگ کرنے کا خمار چڑھا۔ اطلاعات تو یہ ہیں کہ ان تین میں سے دو اینکر حضرات تو برما کے بجائے سیدھے تھائی لینڈ پہنچے جہاں کے کلبوں میں وہ روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا غم غلط کرتے رہے۔ البتہ ایک اینکر صاحب نے برما کے دارالحکومت ینگون (جسے پہلے رنگون کہا جاتا تھا) پہنچ کر اداکاری کے خوب جوہر دکھائے۔
شورش زدہ علاقوں میں رپورٹنگ (Conflict Zone Reporting) اور جنگ زدہ علاقوں میں رپورٹنگ (War Zone Reporting) باقاعدہ مہارت (Skill) ہے۔ آج بھی شام، عراق اور لیبیا سمیت دنیا کے ہر محاذِ جنگ پر درجنوں اور سینکڑوں رپورٹرز، کیمرا مین اور فوٹو گرافر موجود ہیں۔ اس لیے کسی شورش زدہ علاقے میں کسی صحافی کا جانا ہرگز کوئی انوکھا یا جان جوکھوں میں ڈالنے والا کام نہیں۔ ایک فوجی کےلیے جنگ لڑنا اور ایک صحافی کےلیے جنگ کی رپورٹنگ کرنا ان کے کام کا حصہ ہیں۔
برما کی چودہ ریاستوں میں سے ملک کے انتہائی مغرب میں واقع مسلم اکثریت پر مشتمل رخائین (راکھین) نامی ریاست میں صرف روہنگیا نسل کے مسلمانوں کی نسل کُشی ہو رہی ہے جبکہ باقی ملک میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں۔ یہاں تک کہ دیگر نسلی گروہوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان بھی منظم نسل کُشی کا شکار نہیں۔ برمی دارالحکومت رنگون (ینگون) سے رخائین ریاست کے صدر مقام ستوے کا فاصلہ 690 کلومیٹر ہے۔ برمی حکومت کی جانب سے اقوام متحدہ کو لکھے گئے ایک خط میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت 3 سو سے زیادہ غیرملکی صحافی برما میں موجود ہیں۔ ان کی اکثریت رنگون میں ہے البتہ اطلاعات ہیں کہ شورش زدہ رخائین اسٹیٹ کے صدر مقام ستوے سے بھی درجن بھر غیر ملکی صحافی رپورٹنگ کررہے ہیں۔
کچھ روز پہلے برما کی سرحدی فوج نے صحافیوں کے ایک گروپ کو شورش زدہ ریاست کے دور دراز دیہات کا دورہ کرایا تھا جس کے بعد بی بی سی کے نامہ نگار جوناتھن ہیڈ کی وہ مشہور رپورٹ منظر عام پر آئی تھی جس نے برما حکومت کے اُن دعووں کی دھجیاں بکھیر دیں تھیں جن کے مطابق برمی فوج صرف دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کر رہی ہے ۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح فوج اور پولیس کی سرپرستی میں بدھ انتہا پسند، مسلمانوں کی بستیاں نذرِ آتش کر رہے ہیں۔ سرکاری کیمپوں میں مقیم خواتین اور حضرات ایک طرف مسلمانوں کا بہروپ بھر کر آگ لگا تے ہیں۔ پھر اُن ہی افراد نے خود کو ہندو ظاہر کرکے مسلمانوں کے مظالم کی کہانیاں میڈیا کو سنائیں ۔ بی بی سی کی اس ویڈیو رپورٹ نے دنیا میں ہلچل مچادی۔ برما کی حکومت کو سفارتی سطح پر سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ برما کی مقتدر سیاسی جماعت کی سربراہ آنگ سان سوچی نے بھی اقوام متحدہ میں خطاب منسوخ کردیا۔
لیکن، اس سب کے باوجود، جوناتھن ہیڈ کو برما میں ویسا خطرہ لاحق نہیں ہوا جیسا کہ ہمارے بانکے اینکر کو 7 سو کلومیٹر دور رنگون میں لاحق تھا؛ اور جس کےلیے وہ دارالحکومت کی سڑکوں پر اپنی کیمرا ٹیم کے ہمراہ ’’لائیو‘‘ چھپتے پھر رہے تھے۔ ہاں انہیں برما کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو دھوکا دینے کےلیے مجبوراً نائٹ کلب بھی جانا پڑا۔ واپسی پر وہ ایئرپورٹ کے اندر امیگریشن اور کسٹم عملے کی مسلسل عکس بندی کرتے رہے اور ساتھ ہی یہ بھی اعلان کر رہے تھے کہ انہیں گرفتاری اور جان سے مارے جانے کا کتنا خطرہ درپیش ہے۔ ایسا لگتا تھا جیسے اینکر موصوف کی برما سے کوئی ذاتی دشمنی چل رہی ہو، جس کی وجہ سے انہیں اس طرح کے سنگین خطرات پیش آ ئے۔ ورنہ اُنہوں نے رنگون کی سڑکوں پر کھڑے ہو کر صرف رننگ کمنٹری کی تھی جس کے ساتھ دوسری ونڈو میں بین القوامی میڈیا کی بنائی ہوئی ویڈیوز چلتی رہیں۔
کئی سال تک برما میں برطانوی ادارے کےلیے رپورٹنگ کرنے والے ایک صحافی سے میں نے دریافت کیا کہ کیا موجودہ حالات میں شورش زدہ رخائین ریاست میں جانا اور وہاں کے حالات کی عکس بندی کرنا ممکن ہے؟ اُس کا جواب تھا کہ برما کو ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل دنیا کی سب سے زیادہ بدعنوان قوم قرار دے چکی ہے۔ وہاں پیسے خرچ کرکے کچھ بھی کر لینا مشکل نہیں۔ رخائین جانا تو معمولی بات ہے، تگڑا مال لگا کر سرکاری و فوجی گاڑیوں میں جا کر کوریج کرنا یا ’’ارینج ایکشن‘‘ کرانا بھی ناممکن نہیں۔ البتہ خطرہ صرف اتنا ہوگا کہ برمی قابل اعتبار ہرگز نہیں ہوتے۔ ایڈوانس پیسے دینے کی صورت میں ہمیشہ نقصان ہوتا ہے۔
خیر! اینکر صاحبان کی خدمت اقدس میں عرض صرف اتنی ہے کہ ریٹنگ کے حصول کی خاطر سنسنی تو آپ پھیلا ہی رہے ہیں، لیکن خدارا عوام کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ تو نہ کیجیے!
نوٹ: اوورسیز ٹریبیون اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔