ناروے، نئے مہاجرین: کیا اوسلو ای یو کے کہنے پر مزید پناگزین قبول کرلے گا؟

تحریر: سید سبطین شاہ

سکینڈے نویا کا ملک ناروے جو آبادی کے لحاظ سے پانچ ملین افراد کی ایک چھوٹی سی ریاست ہے، سے یورپی یونین نے حالیہ دنوں مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے ملک میں مزید پناہگزینوں کو قبول کرے۔ یہ مطالبہ ایسے وقت سامنے آیا ہےجب اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین پہلے ہی یورپ سے مزید ہزاروں تارکین وطن کو قبول کرنے کا کہہ چکاہے۔

پچھلے دنوں نارویجن اخبارات میں ایک خبرشائع ہوئی جس میں کہاگیاتھا کہ یورپی یونین کے کمشنر برائے مہاجرت ڈیمٹریس آوراموپولوس نے اس بارے میں ایک خط کے ذریعے ناروے کی وزیربرائے امیگریشن سلوی لیستھاگ کو مطلع کیاہے۔

اس خط میں کہاگیا ہے کہ یورپی ممالک اپنے مھاجرین کے کوٹے کو بڑھائیں اور لیبیا سمیت شمالی آفریقا اور دیگر ممالک سے مھاجرین کو اپنے ہاں جگہ دیں۔ یورپی یونین کی خواہش ہے کہ لیبیا، مصر، نائجیریا، ایتھوپیا اور سوڈان کے کئی  مہاجرین کو جو یورپ آنا چاہتے ہیں، یورپ میں آباد کیاجائے اور بقیہ کی وہاں ہی مدد کی جائے۔ خط میں ناروے سمیت دیگر یورپی ممالک سے کہاگیاہے کہ وہ انسانی جذبے کا مظاہرہ کریں اور ان مہاجرین کو لینے کے لیے تیار رہیں۔




ناروے میں اس وقت مشرقی یورپ سے لے کر امریکہ اور ایشیاء تک کے ممالک سے تعلق رکھنے والے کل آٹھ لاکھ سے زائد غیرملکی پس منظر رکھنے والے لوگ آباد ہیں اور گذشتہ چند سالوں کے دوران نئے تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ خاص طورپر جب سے شام کے پناہگزین یورپ میں داخل ہوئے ہیں، دیگر یورپی ممالک کی طرح ناروے میں تارکین وطن کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہواہے۔

یہ ایسےوقت ہے، جب ناروے کی موجودہ حکومت نے حالیہ عرصے کے دوران ایشیائی پس منظر رکھنے والے افراد کے فیملی ویزا کے حوالے سے بعض سخت شرائط بھی عائد کردی ہیں جن میں شریک حیات کو ناروے بلانے کے لیے عمر کی کم از کم حد چوبیس سال شامل ہے۔ اس کے علاوہ سالانہ تین لاکھ نارویجن کراون سے زائد آمدنی کی شرط بھی عائد کردی ہے۔ اس طرح کے ویزوں کے عمل کا دورانیہ بھی لمبا کردیاگیاہے، اکثر کیسوں میں پندرہ ماہ سے زائد کا عرصہ لگ جاتاہے۔ اس سے سب سے زیادہ متاثر وہ لوگ ہوئے جو ستر کی دہائی سے ناروے میں آباد ہٰیں جن میں وہ پاکستانی پس منظر رکھنے والے نارویجن شہری شامل ہیں جو ورکرز کی حیثیت سے ناروے آئے تھے اور ان کی آبادی چالیس ہزار کے قریب ہے۔ ان نئے قواعط سے متاثرہونے والوں میں عراقی، ایرانی، صومالی اور دیگر کمیونٹی بھی شامل ہیں۔

ناروے نے عالمی رحجان کے تحت گذشتہ چند سالوں کے دوران شام، عراق و افغانستان سے مہاجرین کو بڑی تعداد میں قبول کیا  ہے لیکن دوسری طرف ایشیائی ممالک سے شریک حیات بلانے پر مذکورہ شرائط عائد کرکے کئی عشروں سے سکونت پذیر اپنے شہریوں کی مشکلات میں اضافہ کردیاہے۔

اس کے علاوہ ناروے نے ایسے اقدامات کئے ہیں جن سے ظاہر ہوتاہے کہ ناروے اب پناہ کی درخواستوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔ پچھلے چند سالوں کے دوران ناروے پہنچ کر  پناہ کی درخوست دینے والوں کی اکثر درخواستیں بھی اس وجہ سے مسترد ہوئی ہیں۔ اس سے اس بات کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ حکومت اپنی معشیت پر مزید بوجھ برداشت نہیں کرسکتی۔ ناروے ایک ترقی یافتہ فلاحی ریاست ہے جہاں قانونی طور پر رہنے والوں کے لیے علاج اور تعلیم کی مفت سہولیات ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ہرکام کرنے والے کو بیماری اور بے روزگاری کی صورت میں ضروری خرچہ پانی ملتاہے اور اس کے علاوہ ضعیف العمری میں تقریباً ہر فرد کے لیے پنشن کی سہولت بھی ہے۔

اس ساری صورتحال کے برعکس یہ  بھی حقیقت ہے کہ ناروے کو گذشتہ چند سالوں دوران تیل کی عالمی منڈی میں قیمتوں میں گراوٹ کے باعث سخت مالی مشکلات کا سامنا رہاہے جس پر قابو پانے کے لیے موجودہ حکومت نے جمع شدہ کئی ٹریلین ڈالرز کے آئل فنڈ سے استفادہ کیاہے۔ حکومت نے سیاسی اور عوامی مخالفت سے بچنے کے لیے آئل کی صنعت سے بے روزگار ہونے والے ہزاروں بے روزگاروں کے لیے متبادل روزگار کا بندوبست کیا یا پھر انہیں ابتک بے روزگار الاوئنس دیے جارہے ہیں۔

اس صورتحال میں اگر نارویجن حکومت یورپی یونین کی بات مان کر نئے پناہگزین قبول کرتی ہے تو اسے پھر مزید مشکلات درپیش ہوں گی۔ اسے اپوزیشن حلقوں کی طرف سے بھی تنقید کا سامنا کرناپڑے گا اور عوامی سطح پر حکومت مخالف رحجان میں بھی اضافہ ہوگا۔ انہی رحجانات کی وجہ سے گذشتہ سالوں کے دوران ناروے کے بعض علاقوں میں نسل منافرت میں بھی اضافہ ہواہے۔ نئے مہاجرین کو قبول کرنے سے خاص طورپر دائیں بازو کی سخت گیر جماعتوں کو کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا جو حالیہ انتخابات میں تارکین وطن اور غیرملکی پس منظر رکھنے والے لوگوں پر انگلیاں اٹھا کر ووٹ لینے کی کوشش کرتی رہی ہیں ۔ دوسری طرف اگر نارویجن حکومت ان نئے مہاجرین کو قبول نہیں کرتی تو پھر اسے یورپی ممالک کی تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اب حالات کس طرح رخ اختیار کرتے ہیں اور حکومت کیا فیصلہ کرتی ہے، وقت ہی بتائے گا۔




Recommended For You

Leave a Comment