اوسلو (بیورورپورٹ) ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں ایک مباحثے کے مقررین نے جبری شادی کے حوالے سے بعض حلقوں کی
طرف سے مفنی پروپگنڈے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ مقررین نے یہ بھی کہاکہ جبر کی شادی اسلامی قوانین اور انسانی حقوق کے منافی ہے۔
اس اہم معاشرتی موضوع پر مباحثے کا اہتمام پاکستان یونین ناروے نے کیا۔ مقررین نے جبری شادی کو ارینج میرج یا طے شدہ شادی کے بالکل مختلف قرار دیا۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان یونین ناروے کے چیئرمین چوہدری قمراقبال مباحثے کے انعقاد کے مقاصد بیان کئے اور کہاکہ ناروے سمیت پاکستان سے باہر یہ غلط تاثر دیاجاتاہے کہ پاکستان میں اکثر جبری شادی ہوتی ہے۔ حالانکہ ایسا بالکل نہیں بلکہ پاکستان میں بچوں کی رضامندی کےبغیر شادی نہیں ہوسکتی کیونکہ قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔ البتہ طے شدہ شادی یا ارینج میرج اس سے
مختلف ہے۔ ہمارا قدیم روایتی کلچر ہے جیسے ہرملک کا اپنا ایک کلچر ہوتاہے۔ دو خاندان بچوں کی رضامندی کے ساتھ فیصلہ کرتےہیں۔
انھوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ ارینج میرج اور جبیرشادی میں فرق ہے، یہ فرق وضح کیاجاناچاہیے۔ جب تک بچے رضامند نہ ہوں، والدین زبردستی نہیں کرسکتے۔ بعض مخصوص کیسوں میں شاید ایسا ہواہوگا لیکن یہ پورے معاشرے میں نہیں ہورہا۔ انھوں نے میڈیا سے استدعا کی اس کو ایسا تاثر نہ دیا جائے کہ یہ پاکستان کے پورے معاشرے میں ہورہاہے۔ آج کا دور ترقی یافتہ دور ہے، لوگ پڑھے لکھے ہیں، کسی پر شادی کے حوالے سے جبر نہیں کیاجاسکتا۔
مباحثے کے دوران ریسرچ سکالر اور سینئرصحافی سید سبطین شاہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان بنیادی طور پر ایک مسلمان ملک ہے اور شادی کے حوالے سے زیادہ تر اسلامی قوانین پر عمل درآمد ہوتاہے۔ اسلامی قوانین کے مطابق، کوئی بھی شخص جبری شادی نہیں کرسکتا یا دوسروں کو شادی پر مجبور نہیں کرسکتا۔
انھوں نے کہاکہ اسلام شادی میں جبر کی اجازت نہیں دیتا۔ دولہا اور دلہن آزاد ہیں کہ وہ اپنی مرضی کے ساتھ نکاح کریں۔ شادی دونوں فریقین کے مابین ایک معاہدہ ہے اور ان کی رضامندی کے بغیر یہ معاہدہ ہوہی نہیں سکتا۔ یہ زندگی گزارنے کا معاہدہ ہے جس میں جبری
مداخلت ہرگز قابل قبول نہیں۔
البتہ انھوں نے کہا کہ جبری شادی ارینج میرج یا طے شدہ شادی سے مختلف ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ والدین یا دوسرے لوگ دلہا اور دلہن کی مرضی کے بغیر شادی طے نہیں کرسکتے البتہ بعض اوقات اچھے رفیق حیات کے بارے میں دوسروں کی رائے کو شامل کیاجاتاہے۔ خاص طورپر والدین کی تجاویز کو مدنظر رکھا جاتاہے۔ اس میں میرج بیورو والے بھی اچھا رشتہ تلاش اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
سید سبطین شاہ نے کہاکہ میاں و بیوی ایک خاندان کو بناتے ہیں اور خاندان معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔ اگر بنیادی اکائی کو قائم کرتے وقت ہی تنازعہ شروع ہوجائے گا تو پھر پورے معاشرے میں خرابی اور مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔
کچھ کیسوں میں ایسا ہوا ہے کہ لوگوں کو شادی پر مجبور کیاگیاہے لیکن میڈیا نے ان کیسوں کو بہت زیادہ اچھالا ہے۔ جبکہ پاکستان میں عام طورپر والدین تجویز دیتے ہیں اور بچوں سے کہتے ہیں کہ آپ کے لئے وہ رشتہ موزوں ہے لیکن وہ جبر نہیں کرتے۔
انھوں نے کہاکہ یہ ایک اہم موضوع ہے، اس کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا، اس پر غور کی ضرورت ہے تاکہ جبری شادی کو روکاجاسکے۔
تقریب کے دیگر مقررین نے کہاکہ پاکستان کی صورتحال کا اثر اوورسیز پاکستانیوں پر پڑتاہے۔ برطانیہ کی صورتحال کو بطور مثال پیش کیاجاسکتاہے جہاں میڈیا رپورٹس کے مطابق کچھ لوگوں نے اپنے بچوں کو پاکستان میں اپنے رشتہ داروں سے شادی پر مجبورکیاہے۔ انھوں نے یہ وضاحت کی کہ شادی میں ہرطرح کا جبر انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ جبری شادیاں غلط ہیں اور انسانی و مذہبی لحاظ سے ہرگزقابل قبول نہیں۔
جبری شادی کا میاں بیوی اور ان کی نئی نسل اور معاشرے پر برا اثر پڑتاہے۔ لوگ ذہنی مریض بن جاتے ہیں اور بہت سے دوسرے مسائل جنم لیتے ہیں۔
مباحثے میں پاکستان اور دیگر ممالک سے جن سماجی و صحافتی شخصیات نے شرکت کی ان میں فیصل آباد سے سماجی وکاروباری شخصیت خواجہ ساجد رزاق سکہ، ڈنمارک سے چوہدری محمد اشرف، پرتقال سے میڈیا پرسن اور کمپیئر شاہ رخ سہیل، برطانیہ سے اقبال احمد، گجرات سے پاکستانی صحافی محمود اختر نمایاں تھے۔ دیگر متعدد مقامی افراد نے شرکت کی۔ پاکستان یونین ناروے نے تمام شرکا کا شکریہ ادا کیا۔ مباحثے کے اختتام پر پبلسٹی سیکرٹری چوہدری منشا خان کی طرف سے شرکا کے لیے ضیافت کا بھی اہتمام کیاگیاتھا۔