تحریر: سید سبطین شاہ
پاکستان کے شہرقصور میں ایک کمسن بچی زینب کے ساتھ زیادتی اور اس کے قتل کا سانحہ انتہائی المناک ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
اس واقعے کے بعد معاشرے کے ہرطبقے سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے اس کی مذمت کی اور اسے شرمناک قرار دیتے ہوئے ملزمان کو عبرتناک سزا دینے کا مطالبہ کیاہے۔
راقم جو صحافت کے ساتھ ساتھ سوسائٹی کے علوم کی ایک شاخ بین الاقوامی تعلقات کے شعبہ میں ریسرچر کی حیثیت سے پاکستان کے بعض اہم مسائل کے حوالے سے تحقیق کررہاہے، اس مضمون کے ذریعے کچھ گزارشات حکومت اور عوام کی ذمہ داریوں کے حوالے سے پیش کرنا ضروری سمجھتاہے۔
اس طرح کے واقعات کی کئی وجوعات ہیں جن میں معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے رواروی اور بے ہودگی ہے جس کو بڑھاوا دینے میں میڈیا کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ غیرملکی ثقافتی یلغار کو پاکستانی معاشرے نے گرم جوشی سے خیرمقدم کیا ہے اور حکومت کی ناقص پالیسیوں اور میڈیا کی قومی مفادات میں ترجیحات نہ ہونے کی وجہ سے غیراخلاقی حرکات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
معاشرے میں بڑھتے ہوئے مسائل نے ایک اور کام یہ کیا ہے کہ معاشرے کے غیراخلاقی رحجانات اور مالی مسائل اور حکومتی عدم حکمت عملی کے باعث شادی یا نکاح جیسی سنت کو انجام دینا مشکل ہوگیا ہے اور طلاق آسان ہوگئی ہے۔ حالانکہ شادی آسان ہونی چاہیے تھی اور طلاق مشکل۔
حکومتی عہدیداراں اپنی ذمہ داریاں نبھانے سے انکاری ہیں اور معاشرہ اپنی اخلاقی ذمہ داریاں کسی اور ڈال رہاہے اور والدین وقت کی قلت کے باعث اپنے بچوں کو وقت نہیں دے پاتے۔
ان حالات بچے معاشرے کی بے لگامی کا شکار ہوجاتے ہیں اور پھر اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ جس کے بعد حکومت اور سیاسی زعما اور سماجی اور مذہبی شخصیات نامعلوم مجرموں کے خلاف بیان دے کر خاموش ہوتے جاتے ہیں۔ یہ خاموشی آئندہ آنے والے واقعے تک طاری رہتی ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ معاشرے کا درد رکھنے والے لوگ احتجاج کرنے باہر نکلتے ہیں لیکن انہیں بھی پولیس کے تشدد کے ذریعے خاموش کرلیاجاتا ہے یا پھر وہ خود ہی اپنے بے اثر احتجاج سے تھک کر سکوت اختیار کرلیتے ہیں۔
یادرکھیں، اس طرح مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ مسائل کے حل کے لیے ان کی وجوعات دیکھی جاتی ہیں اور پھر ان کے مطابق حل تلاش کیاجاتاہے۔
قصور کی زینب کے ساتھ زیادتی اور اس کا قتل جیسے واقعات پورے ملک میں ہورہے ہٰیں۔ یہ قصور میں پہلا واقعہ نہیں بلکہ اسی شہر میں اس سے قبل گیارہ کمسن لڑکیاں درندوں کی ہوس کا شکار ہوچکی ہیں۔
حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس طرح کے مسائل حل کرنے کے لیے ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات کریں۔ ان واقعات کی وجوعات کی نشاندھی کی جائے اور دور رس حل تلاش کیا جائے۔