(تحریر، محمد طارق )
پاکستان میں نیم اقلیت یہ دلیل دے رہی ہے کہ پنڈی دھرنے کو حکومت پہلے ہی سختی سے نمٹ لیتی تو حالات یہاں تک نہ پہنچ پاتے۔افسوس صد افسوس، اقلیت اس معاملے کی حساسیت کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ یہ مسلہ کیوں کر شروع ہو ا ہے ، پھر اس مسلے کو حکومت وقت نے خود ہی غلطی تسلیم کرکے واپس لے لیا۔ اس ایشو نے پاکستان کے اقتدارتی طبقے کی منفاقت کو واضح کر دیاکہ یہ لوگ کس طرح عوام کے اصل مسائل پر توجہ دینے ، ان کو حل کرنے کے بجائے ایسے معاملات پر عوام کو الجھا دیتے ہیں، جو عوام کو ایسے دوراہے پر لے آتے ہیں جہاں آکر عوام کو امر مجبوری سخت اقدامات کرنے پڑتے ہیں۔
یہ خبر بھی پڑھیں:فیض آباد دھرنا:وزیر اعظم، آرمی چیف اہم ملاقات آج ہوگی
یہ جو پاکستان میں انتشار شروع ہوا ہے وہ سرا سر پاکستان کے ممبران اسمبلی، ممبران سینیٹرز کی پارلیمان میں غیر سنجیدگی ، پارلیمان کی کاروائی پر نہ دھیان دینا ، نہ آئینی ترامیم کو غور سے پڑھنا ، بلکہ کہیں تو ایسے ہی جو پڑھتے ہی نہیں کہ پارلیمان میں کیا پیش ہو رہا ہے ، بس صرف دوسرے کے کہنے پر ہاتھ کھڑا کر دیتے ہیں، موجودہ انتخابی آئینی ترامیم کے وقت ایسا ہی ہوا – جب عوام کی طرف سے ، میڈیا میں اس پر ردعمل آیا تو حکومت نے اپنے پاس کروائی ہوئی ترامیم کو واپس لے لیا ، لیکن اس وقت معاملات دھرنے تک پہنچ آئے تھے ، ظاہرہے جب دھرنے والے میدان میں آگئے اور مطالبہ کرنے لگے کہ ان آئینی ترامیم کے خالقوں کو سامنے لایا جائے ، تو اس وقت حکومت کو اپنی رٹ یاد آنے لگی، حالانکہ یہ حکومتی رٹ اس وقت کہاں تھی جب میاں نواز شریف نے اپنی نااہلی کے خلاف جی ٹی روڈ پر مسلسل 5 دن ریلی نکالی ؟
یہ خبر بھی پڑھیں:وزیر تعلیم نے پنجاب میں تعلیمی ادارے 2 روز کیلئے بند کر دیئے
ریاستی طاقت کو ساتھ لے کر ریاستی رٹ قائم کرنے کے چکر میں حکومت نے پورے ملک میں احتجاج، احتجاجی مظاہروں کا دروازہ کھول دیا ، 3 گھنٹے میں دھرنا ختم کرنے والوں کو اب حکومتی کابینہ کو بچانے کے لالے پڑنا شروع ہوگئےہیں۔ وجہ صرف یہ ہے کہ حکومت نے ملک کے 80 فیصد مسلمانوں کے جذبات کو سمجھنے میں دیر کر دی۔ یاد رکھیں بات کچھ بھی ہو لیکن عوام میں جب یہ بات پھیلی کہ حکومت مسلمانوں کے بنیادی عقائد کو ختم کرنے لگی ہے تو عوام باہر نکلتے ہیں اور نظام حکومت کو درہم برہم کر کے رکھ دیتے ہیں۔