(تحریر، محمد طارق )
”و امرھم شوریٰ بینہم ” اپنے اجتماعی معاملات اجتماعی مشاورت سے حل کرو – اسلام میں انسانی رائے کی سب سے بڑی اہمیت ہے – جو لوگ یہ موقف رکھتے ہیں کہ جمہوریت کا عمل اور جمہوری راستہ انسانوں کا بنایا ہوا ہے، وہ غور سے قرآن پاک کی یہ آیت پڑھے ”و امرھم شوریٰ بینہم ” ہمارے ہاں کسی بھی سبجیکٹ، موضوع کو سنجیدگی ، غور سے نہ پڑھا جاتاہے ، نہ ہی اسے سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے – ان غیرسنجیدہ رویوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض آمرانہ سوچ کے دانشور، تبلیغ دین کے معلم ، منبر و محراب کے واعظین یہ نقطہ پیش کرتے ہیں، کہ دنیا میں خدا کا نظام ہے اور خدائی نظام چلنا چاہیے، اس لیے جمہوری عمل خدا کے نظام کے مقابلے میں ہے ، اس لیے یہ ایک کافرانہ نظام ہے اور اس کو قطعی طور پر اسلامی معاشرے میں رائج نہیں ہونے دیا جائے –
عام پبلک ان کے اس نقطے کو پرکھے بغیر ان نیم دانشوروں کی ہمنوا بن جاتی ہے ، پھر یہی پبلک ہر محفل ، ہر فورم پر جمہوریت اور جمہوری پراسسس کو کوسنا شروع ہو جاتےہیں – مسلمانوں کی تاریخ شخصیات ، آمرانہ ادوار کے گرد گھومتی ہے ، اس لیے عام مسلمان کو جمہوری عمل سے اتنی قربت نہیں بن پاتی ، جتنی قربت مغربی ممالک کے باشندوں کو جمہوری عمل سے ہوتی ہے – جمہوریت دراصل ایک راستہ ہے ، ایک اوزار ہے جس سے ایک اجتماعی پلیٹ فارم کو تشکیل دینا ہوتا ہے ، یا انسانوں کے درمیان ایک اجتماعی ایشو کو متفقہ رائے ، اکثریتی رائے سے فیصلہ کرنا ہوتا ہے ، جب فیصلہ ہو جاتا ہے کہ کیا کرنا ہے ، اور کس نے اس فیصلے پر کام کرنا ہے تو پھر ایشوز بہتر طریقے سے حل ہونا شروع ہو جاتے ہیں، مطلب یہ نکلا کہ کوئی بھی انسان، گروہ یا ادارہ بذات خود یا اکیلے طور پر اجتماعی معاملات پر فیصلے کرنے کا اختیار نہیں رکھتا – یہاں سے بات سمجھنے کی شروع ہوتی ہے کہ جمہوریت کا خدائی نظام سے ملانا باکل غلط دلیل ہے ، خدا کا نظام ایک مقصد ہے ، جبکہ جمہوری عمل ایک راستہ ہے جس سے خدا کا نظام، یا کوئی نظام کسی بھی معاشرے میں رائج کیا جا سکتا ہے – اس نقطے کی اہم بات یہ ہے کہ مثلا اگر کسی ملک میں نماز ، زکوت کا نظام نافذ کرنا ہے تو اس وقت بھی جمہوری عمل کی ضرورت پڑے گی ، کیونکہ نماز ، زکوت خدائی حکم ہے ،اور یہ ایک مقصد ہے ، ملک میں نماز ، زکوت کے مقصد حاصل کرنے یا نافذ کرنے کے لیے خدا نے کہیں سے زمین پر نہیں آنا ، اس لیے نماز، زکوت کو نافذ کرنے کے لیے ایک باڈی ، ایک گروپ ، یا ایک حکومت چاہئیے ہوگی ، اس گروپ ، باڈی یا حکومت میں کس نے بیٹھنا ہے یہ فیصلہ اس ملک کے باشندوں کی رائے، یا ووٹ سے کرانا پڑے گا، اس طرح جمہوری عمل سے ایک نظام حکومت تشکیل پائے گا۔
جس نے آگے چل کر اس خدائی نظام نماز ، زکوت کو ملک میں نافذالعمل کرنا ہے – اسی طرح کسی اجتماعی کام کو کرنے کے لیے لوگوں کی مختلف آرا ہوسکتی ہیں، کام کو مکمل کرنے کے لیے صرف ایک رائے پر متفق ہونا پڑتا ہے ، اس لیے متفقہ فیصلے کو حاصل کرنے کے لیے جمہوری اوزار کو استعمال کیا جاتا ہے – حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت اجتماعی معاملات پر فیصلے ہمشیہ جمہوری طریقے ، انسانوں کی متفقہ رائے سے کیے جاتے تھے ، اس جمہوری عمل کی مثالیں نبی پاک کے دور کی مختلف جنگوں کے وقت کیے گئے فیصلوں پر پڑھی جاسکتی ہیں، اس کے علاوہ آپ صلح حدیبیہ ، میثاق مدینہ کے ایشوز پر جو فیصلے کئے گئے، وہ سارے انسانوں کی متفقہ اکثریت رائے سے کیے گئے تھے ، فرق تھوڑا بہت آج کے ووٹنگ کے طریقہ کار پر ہوسکتا ہے-
سب سے بڑی مثال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے جانے کے بعد صحابہ کرام متفقہ رائے سے خلفائے راشدین کو منتخب کیا – بدقسمتی سے اس کے بعد مسلمانوں نے زیادہ انسانوں کی رائے کو سائیڈ میں کردیا ، اور چند لوگوں نے اپنے آ پ کو دوسروں سے زیادہ معتبر، سیانا ، عقل مند سمجھنا شروع کر دیا ، ساتھ ہی ان چند لوگوں نے معاشرے کے سرمایہ دار طبقات ، مذہبی طبقات، اور بدمعاش و مجرم طبقات کو ساتھ ملا کر اپنے اپنے ملکوں، صوبوں میں بذریعہ طاقت اقتدار پر قابض ہونا شروع ہو گئے –
اجتماع معاملات، اجتماعی نظم ونسق کو چلانے کے لیے انسانی رائے کو اہمیت، احترام نہ دینے کی وجہ سے اسلامی معاشرے، اسلامی ممالک انتشار، لاقانونیت، ناانصافی میں مبتلا ہیں- حالانکہ ان اسلامی ممالک میں مساجد بھری ہوئی ہیں- بڑے بڑے جید عالم و پیر ہر روز دعائیں مانگتے ہیں- ہر روز کڑوڑں دفعہ قرآن پاک کی تلاوت کی جاتی ہے – عمرے ، حج، رمضان کی تراویح بڑے اہتمام سے کئے اور پڑھے جاتے ہیں – یہ ساری عبادات کرنے کے باوجود اگر اسلامی ممالک میں معاشرتی ، معاشی مثبت تبدیلی نہیں آرہی تو ، وجہ صرف ایک کہ مسلمان “وامرھم شوری بینہم ” جو کو اجتماعی زندگی کا بنیادی ستون ہے ،اس کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے سے قاصر ہیں – ان دلائل سے ثابت ہوا کہ جمہوریت عین اسلام کے مطابق، کیونکہ کسی بھی خدائی دین کا اہم جز انسان ہے، انسان کی رائے ہے ، اس لیے جب انسان کسی بھی اجتماعی ایشو کو متفقہ رائے، جمہوری انداز سے حل کریں گے ، ان معاشروں میں ترقی بھی ہوگی اور برکت بھی رہے گی –
نوٹ: اوورسیز ٹریبون کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔