تحریر: ڈاکٹر سید سبطین شاہ۔ اسلام آباد (پاکستان)
دنیا میں آنے والا ہر شخص اپنا کردار ادا کرکے اس دارفانی سے رخصت ہوجاتا ہے۔ کچھ لوگ اپنے جانے کے بعد بھی رہتے لوگوں کے لیے اپنے اچھے نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ مرحوم شیخ ظہوراحمد بھی ایسے ہی انسان تھے جو ناروے میں پاکستانیوں کی ایک تاریخ رقم کرکے پچھلے ماہ اکتوبر کے آواخر میں ابدی نیند سوگئے۔ سیالکوٹ کے ایک قدیم محلے سے تعلق رکھنے والے شیخ ظہور احمد بہتر معاش کی تلاش میں ۱۹۷۰ء (انیس سو ستر) میں ناروے آئے اور یہاں کے ہی ہوکر رہ گئے۔ ناروے میں معاش کے لیے انہوں نے تجارت کا راستہ اختیار کیا۔ اس زمانے میں بڑی تعداد میں لوگ پاکستان سے محنت مزدوری کرنے کے لیے ناروے آئے تھے۔ ستر کی دہائی وہ عشرہ ہے جس کے دوران ناروے اور ڈنمارک میں پاکستانیوں کے لیے ورک پرمٹ لینا بہت آسان تھا۔ اس زمانے میں پاکستانیوں کو کھاریاں کی مشہور شخصیت نیک عالم گوندل نے ان سکینڈے نیوین ملکوں کا راستہ دکھایا تھا۔
شیخ ظہور احمد نے ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں رہائش اختیار کی اور وہاں پر ہی اپنے کاروبار کا آغاز کیا۔ انہوں نے پہلے ایک چھوٹی سی دوکان ڈالی اور پھر ’’ظہور سٹور‘‘ کے نام سے اس دوکان کو وسیع کرلیا جس میں دالیں، مصالحہ جات اور حلال گوشت سمیت کھانے پینے کی تمام اشیاء دستیاب ہوتی تھیں۔ اس دوکان پر پاکستانی خواتین کے لیے اعلیٰ معیار کا کپڑا بھی دستیاب تھا۔ اس زمانے میں دو دیگرنارویجن پاکستانی شخصیات نے بھی پاکستانی اشیاء کی دوکانیں بنائی تھیں جن میں ہارون آباد (پنجاب) کے ماسٹر صدیق اور میرپور (آزاد کشمیر) چوہدری اسلم قابل ذکرہیں۔
یہ وہ زمانہ تھا جب ناروے میں پاکستانیوں کو مختلف سماجی مشکلات کے علاوہ، اپنے کاغذات کی درستگی کے حوالے سے بھی مسائل تھے جن کو حل کرنے کے لیے گاؤں دھکڑ (کھاریاں) سے تعلق رکھنے والی شخصیت چوہدری اسلم المعروف میاں خان دھکڑ اور ان کے دوستوں نے ایک سماجی تنظیم بنائی۔ نئے ملک میں آنے والے پاکستانی محنت کشوں کو اپنے رقوم پاکستان بھجوانے کے لیے بھی دشواری تھی اور اس کام میں آسانی پیدا کرنے کے لیے راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی شخصیت عبدالرشید المعروف ’’رشید بنک والے‘‘ بہت مددگار ثابت ہوئے۔
شیخ ظہور احمد کی دوکان اوسلو کے علاقے گرون لینڈ کی مشہور سٹریٹ ’’تھیئن گاتا‘‘ میں تھی۔ گرون لینڈ کو جہاں بہت سے پاکستانی آباد ہوئے تھے، اس زمانے میں چھوٹا پاکستان کہاجاتا تھا۔ شیخ صاحب کے کاروبار کو چلانے میں ان کے اہل خانہ بھی پوری طرح شامل تھے۔ شیخ ظہور احمد کو رب کریم اولاد کثیر عطاء کی اور ان کے بیٹوں نے اپنے والدین کی سرپرستی میں ٹریول ایجنسی کا کاروبار بھی شروع کیا جسے بعد میں کسی دوسرے شخص کو فروخت کردیا گیا۔
راقم کے ناروے میں قیام کے دوران شیخ ظہورصاحب سے ملاقات کرنے کا کئی بار موقع ملا۔ جب راقم ناروے گیا تو اس وقت شیخ صاحب کا کاروبار کافی پھیل چکا تھا اور کاروباری معاملات میں ان کا خاندان ان کے ساتھ معاونت کررہا تھا۔ سفید ریش شیخ صاحب سے جب بھی ملاقات ہوئی، وہ انتہائی شفقت سے پیش آئے اور انہوں نے اپنے خلوص و محبت کا اظہار کیا۔ ان کے بارے میں ناروے کی اخبارات نے کئی بار لکھا۔
دین سے ان کی محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں کے نام بھی اہل بیت و اصحاب رسول (ص) کے ناموں پر رکھے اور ناروے میں قائم ہونے والی ایک مسجد کے حوالے سے انہوں نے بھرپور اخلاقی اور مالی معاونت کی۔
شیخ صاحب گذشتہ چھ سالوں سے بیمار تھے اور بیماری کے دوران وہ زیادہ تر گھر پر ہی زیرعلاج رہے۔ ان کی نماز جنازہ مسجد مرکزی جماعت اہل سنت اوسلو میں ادا کی گئی جس میں بڑی تعداد میں نارویجن مسلمانوں نے شرکت کی۔ بعض لوگوں کے بقول، یہ اوسلو کی تاریخ میں کسی نارویجن پاکستانی کا سب سے بڑا جنازہ تھا۔ رب کریم شیخ ظہور صاحب کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولاد اور دیگر خاندان والوں صبر جمیل عطاء فرمائے، آمین
نوٹ: اس مضمون کے تحریر کنندہ پاکستان میں بین الاقوامی تعلقات پر تدریس اور تحقیق سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے بطور صحافی ناروے میں بھی کام کیاہے۔