پاکستان کے صوبہ پنجاب کے وسط میں موجود ایک چھوٹا سے گاؤں ’موریکے ججہ‘ یوں تو کسی بھی عام دیہات کا منظر پیش کرتا ہے لیکن یہاں کی گلیوں میں کھیلتے بچے لڑکپن کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی ایک ایسا خواب دیکھنے لگتے ہیں جس کی تکمیل اُن کی جان بھی لے سکتی ہے۔
یہ خواب بقیہ زندگی یورپ میں گزارنے کا ہے جس کے لیے اس گاؤں کے متعدد افراد ’ڈنکی‘ جیسا غیر قانونی طریقہ اپنانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
اس گاؤں میں یہ ایک کُھلا راز ہے۔ یہی وہ گاؤں ہے جہاں سے تعلق رکھنے والے 14 سالہ عابد جاوید نے اٹلی جانے کی غیر قانونی کوشش کی لیکن 13 دسمبر کو یونان کے قریب کشتی کو پیش آنے والے حادثے کے باعث بحیرۂ روم کے پانیوں کے سپرد ہو گئے۔
اس حادثے میں ہلاک ہونے والوں اور زندہ بچ جانے والوں کا تعلق صوبے پنجاب کے وسطی علاقوں سے ہے۔ ان علاقوں میں جو بچے ہلاک ہوئے اُن کی عمریں 12 سے 16 سال کے درمیان تھیں اور اُن میں سے اکثریت کا تعلق متمول گھرانوں سے تھا۔
غیرقانونی طور پر بیرونِ ملک جانے کے حوالے سے عام تاثر یہ رہا ہے کہ لوگ ملک کے معاشی حالات کو دیکھ کر بہتر مستقبل کی تلاش کے لیے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر بیرونِ ممالک اور بالخصوص یورپی ممالک جانے کی کوشش کرتے ہیں۔